دو ہم نفس وہ اور میں، میں اور وہ، بچپن کے دن
آدھی صدی کی دوستی کا عہدِ زریں
روز کا ملنا بچھڑنا، ساتھ پڑھنا، ساتھ لکھنا
اور اب کچھ بھی نہیں یادوں کی خوشبو کے سوا
آج اس کے زیر پا دنیا کا نقشہ اور میرے سر پہ ان رستوں کی دھول
جن پر بنا کرتے تھے میرے اور اس کے نقشِ پا شانہ بہ شانہ
اب کہاں وہ میں کہاں محدود میری شخصیت اس کا تشخص بیکراں
دوچار برسوں میں اس سرزمیں کی طرف
جس کی ہوا میں ہم نے پہلی سانس لی تھی
راہ اس کی رخ بدلتی ہے تو آ ملتا ہے وہ
اس کا خلوص معتبر زندہ رہا ہر دور میں
جب بھی ملا مجھ کو لگا میرا ہے وہ، اس کا ہوں میں
اظہار وارثی
No comments:
Post a Comment