مثالِ ریگ مُٹھی سے پھسلتا جا رہا ہوں
ظفر لوگوں کے جیون سے نکلتا جا رہا ہوں
بہت آساں، بہت جلدی سفر ڈھلوان کا ہے
سو پتھر کی طرح پگ پگ اُچھلتا جا رہا ہوں
کھنچا جاتا ہوں یوں اگلے پڑاؤ کی کشش میں
تھکن سے چُور ہوں میں پھر بھی چلتا جا رہا ہوں
ہنر اس کھوکھلی دنیا میں جینے کا یہی ہے
برنگِ آب ہر سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہوں
کبھی محفل سے اُٹھ آتا تھا اک تِرچھی نظر پر
اور اب نفرت کی ہر پُڑیا نگلتا جا رہا ہوں
ادا کرنے لگا ہوں روشنی کرنے کی قیمت
برابر جل رہا ہوں، اور پگھلتا جا رہا ہوں
پرانے ذائقوں میں فرق سا کچھ آ گیا ہے
میں اپنا ذوق بھی کچھ کچھ بدلتا جا رہا ہوں
میں کس معیار سے اپنا مآلِ کار پرکھوں
بگڑ کر رہ گیا ہوں، یا سنبھلتا جا رہا ہوں
ظفر بارِ ثمر سے جُھک گیا ہوں میں زمین پر
جہاں والے سمجھتے ہیں پھلتا جا رہا ہوں
ظفر نیازی
No comments:
Post a Comment