شہر میں رہنا لیکن خود کو دشت نورد بھی رکھنا
اپنے اندر زندہ ایک آوارہ گرد بھی رکھنا
جس کے کاندھے پر سر رکھ کر سارا دُکھ بہ جائے
اپنی زیست میں شامل کوئی ایسا فرد بھی رکھنا
جبر، محبت، نفرت، وحشت حصہ ہیں جیون کا
آنکھ کی سرخی قائم رکھنا، لہجہ سرد بھی رکھنا
مجھ کو اپنے صدقِ طلب کی یوں تشہیر نہ بھائے
مشکل ہے لب خشک بھی رہنا، رنگت زرد بھی رکھنا
بے چہرہ لوگوں کے شہر نوازش رہنا ہو تو
تم اپنے آئینہ چہرے پر کچھ گرد بھی رکھنا
نوازش علی ندیم
No comments:
Post a Comment