Friday 16 December 2022

بس ایک ہی تو یار تھا نہیں رہا

 بس ایک ہی تو یار تھا، نہیں رہا

وہی سکوں قرار تھا، نہیں رہا

نہیں رہا وہ شخص میرا ہم نشیں

وہ میرا غم گسار تھا، نہیں رہا

جو ڈس گیا ہے گُھس کے آستین میں

اُسی پہ اعتبار تھا، نہیں رہا

یقین اور خلوص کے ستون پر

مکان استوار تھا، نہیں رہا

بندھے تھے ابتدائے عشق اپنے بیچ

قسم تھی اک، قرار تھا، نہیں رہا

تُو آ گیا ہے غیر کی پکڑ میں کیوں

تُو میرا راز دار تھا، نہیں رہا

وہ شخص سرکشی میں جو ہے پڑ گیا

وفا کا پاسدار تھا، نہیں رہا

تِری طرح زمانہ بھی تھا میرے ساتھ

یہ وقت سازگار تھا، نہیں رہا


تنزیلہ مہروی

No comments:

Post a Comment