Friday 16 December 2022

یہ تیرے ہجر کا موسم سراب جیسا ہے

 یہ تیرے ہجر کا موسم سراب جیسا ہے

ہر ایک لمحہ مسلسل عذاب جیسا ہے

لبوں پہ اس کے تبسم کے پھول کھلتے ہیں

وہ ایک چہرہ معطر گلاب جیسا ہے

کسی نے جام اٹھایا, کسی کی زلف کھلی

ہوا کے دوش پہ موسم سحاب جیسا ہے

بہ نام لالہ رخاں کچھ تو زہر غم پی لیں

تِرے لبوں میں ہلاہل شراب جیسا ہے

وہ میرے پاس ہے لیکن یہ حال ہے اپنا

سکون دل کا بھی اب اضطراب جیسا ہے

قرارِ جاں بھی وہی اضطرابِ جاں بھی وہی

وہ ایک شخص مجسم شباب جیسا ہے

خلش ہے دل میں کسک سی ہے بیکلی بھی ہے

صبا! یہ ہوش کا عالم بھی خواب جیسا ہے


نعیم صبا 

No comments:

Post a Comment