یہ تیرے ہجر کا موسم سراب جیسا ہے
ہر ایک لمحہ مسلسل عذاب جیسا ہے
لبوں پہ اس کے تبسم کے پھول کھلتے ہیں
وہ ایک چہرہ معطر گلاب جیسا ہے
کسی نے جام اٹھایا, کسی کی زلف کھلی
ہوا کے دوش پہ موسم سحاب جیسا ہے
بہ نام لالہ رخاں کچھ تو زہر غم پی لیں
تِرے لبوں میں ہلاہل شراب جیسا ہے
وہ میرے پاس ہے لیکن یہ حال ہے اپنا
سکون دل کا بھی اب اضطراب جیسا ہے
قرارِ جاں بھی وہی اضطرابِ جاں بھی وہی
وہ ایک شخص مجسم شباب جیسا ہے
خلش ہے دل میں کسک سی ہے بیکلی بھی ہے
صبا! یہ ہوش کا عالم بھی خواب جیسا ہے
نعیم صبا
No comments:
Post a Comment