Wednesday 14 December 2022

دل میں اک دشت ہے اور آبلہ پائی یوں ہے

 دل میں اک دشت ہے اور آبلہ پائی یوں ہے

وہ میرے سامنے بیٹھا ہے، جدائی یوں ہے

ایک تلوار بھی ہے کاسۂ اُمید کے ساتھ

اب کے اس شہر میں اندازِ گدائی یوں ہے

دل، جگر، آنکھ سبھی ایک ہوئے جاتے ہوئے

میرے احوال میں وہ دستِ حنائی یوں ہے

بزمِ احباب بھی ہے رونقِ دنیا بھی ہے

پر میرا دل نہیں لگتا، میرے بھائی یوں ہے

تیرے بارے میں کوئی مجھ کو بتاتا ہی نہیں

وہ خدا ایسا ہے اور اس کی خدائی یوں ہے


پروفیسر جاوید اقبال

No comments:

Post a Comment