دل میں اک دشت ہے اور آبلہ پائی یوں ہے
وہ میرے سامنے بیٹھا ہے، جدائی یوں ہے
ایک تلوار بھی ہے کاسۂ اُمید کے ساتھ
اب کے اس شہر میں اندازِ گدائی یوں ہے
دل، جگر، آنکھ سبھی ایک ہوئے جاتے ہوئے
میرے احوال میں وہ دستِ حنائی یوں ہے
بزمِ احباب بھی ہے رونقِ دنیا بھی ہے
پر میرا دل نہیں لگتا، میرے بھائی یوں ہے
تیرے بارے میں کوئی مجھ کو بتاتا ہی نہیں
وہ خدا ایسا ہے اور اس کی خدائی یوں ہے
پروفیسر جاوید اقبال
No comments:
Post a Comment