Wednesday 14 December 2022

راہ کے خوف کو یوں دل سے نکالے ہوئے ہیں

راہ کے خوف کو یوں دل سے نکالے ہوئے ہیں

خُود کلامی ہی ہم خُود کو سنبھالے ہوئے ہیں

وقت اچھا تھا تو احباب نے گھیرا ہُوا تھا

حال بگڑا ہے تو ہم اپنے حوالے ہوئے ہیں

کیسے دیکھیں گے بھلا آپ کو بدلا ہوا ہم

سو، ملاقات کو آئندہ پہ ٹالے ہوئے ہیں

ہیں جہاں لوگ زر و مال و مناصب کے اسیر

ہم وہاں پیار کے سکوں کو اُچھالے ہوئے ہیں

مُدتوں حُسن کی تعریف کو ڈھونڈا ہم نے

تم کہیں جا کے تمہیں دیکھنے والے ہوئے ہیں

نیند میں بھی میں اسے ڈھونڈنے نکلا ہوں کہیں

رات یونہی تو نہیں پاؤں میں چھالے ہوئے ہیں

روشنی تھی ہی نہیں خانۂ ویراں میں میرے

آپ آئے ہیں تو اس گھر میں اُجالے ہوئے ہیں


سلمان صدیقی

No comments:

Post a Comment