Wednesday 14 December 2022

تیرے پیروں تلے جو آ رہے ہیں

تیرے پیروں تلے جو آ رہے ہیں

پُھول پھولے نہیں سما رہے ہیں

حرف با حرف یاد کر کے تجھے

لفظ با لفظ گُنگنا رہے ہیں

وہ بُلاتے ہیں اور جانب سے

ہم کسی اور سمت جا رہے ہیں

داہنے ہاتھ کی دِکھا کر دوست

باہنے گال پر لگا رہے ہیں

آپ کی بے نیازی کہتی ہے

آپ جیسے کبھی خدا رہے ہیں

شاعری ان سے ہو نہیں رہی ہے

ہاں مگر، شعر وہ بنا رہے ہیں

ان سے شکوہ نہ کر، کراہت کر

تیرا اُگلا ہوا جو کھا رہے ہیں

پیش خدمت ہیں کچھ نئے موضوع

اور غزل بھی نئی سنا رہے ہیں

مُدعا ہو چکا بیاں احمد

بے وجہ کیوں غزل بڑھا رہے ہیں


احمد جہانگیر داجلی

No comments:

Post a Comment