Monday 12 December 2022

سر حشر بھی جو نہ ختم ہوں

سرِ حشر بھی جو نہ ختم ہوں

یہ رگوں میں بہتی اداسیاں

جو کبھی کبھی کی ہوں راحتیں

وہ بھی رنج بن کے تمام ہوں

ابھی سلسلہ ہے نیا نیا

ابھی روشنی سی مٹھاس ہے

جو مجھی کو مجھ سے مِلا سکے

مجھے اس جنوں کی تلاش ہے

میں بھی کہہ سکوں کہ بِلا شُبہ

مجھے رَت جگوں نے ڈسا نہیں

جو تیری طرف کو پلٹ گیا

وہ رعونتوں میں بسا نہیں


مشعال اعجاز

No comments:

Post a Comment