Friday 9 December 2022

ہم ملیں گے کہیں اجنبی شہر کی شاہراؤں پہ

 ہم ملیں گے کہیں

اجنبی شہر کی خواب ہوتی ہوئی شاہراؤں پہ

اور شاہراؤں پہ پھیلی ہوئی دھوپ میں

ایک دن ہم کہیں ساتھ ہوں گے

وقت کی آندھیوں سے اٹی ساعتوں پر سے مٹی ہٹاتے ہوئے

ایک ہی جیسے آنسو بہاتے ہوئے

ہم ملیں گے گھنے جنگلوں کی ہری گھاس پر

اور کسی شاخ نازک پہ پڑتے ہوئے بوجھ کی داستانوں میں کھو جائیں گے

ہم صنوبر کے پیڑوں کے نوکیلے پتوں سے 

صدیوں سے سوئے ہوئے دیوتاؤں کی آنکھیں چبھو جائیں گے

ہم ملیں گے کہیں برف کے بازوؤں میں گھرے پربتوں پر

بانجھ قبروں میں لیٹے ہوئے کوہ پیماؤں کی یاد میں نظم کہتے ہوئے

جو پہاڑوں کی اولاد تھے اور انہیں وقت آنے پہ

ماں باپ نے اپنی آغوش میں لے لیا

ہم ملیں گے شاہ سلیمان کے عرس میں

حوض کی سیڑھیوں پر 

وضو کرنے والوں کے شفاف چہروں کے آگے

سنگ مرمر سے آراستہ فرش پر پیر رکھتے ہوئے

آہ بھرتے ہوئے اور 

درختوں کو منت کے دھاگوں سے آزاد کرتے ہوئے

ہم ملیں گے کہیں نارمنڈی کے ساحل پہ آتے ہوئے 

اپنے گم گشتہ رستوں کی خاک سفر سے اٹی

وردیوں کے نشاں دیکھ کر

مراکش سے پلٹے ہوئے ایک جرنیل کی 

آخری بات پر مسکراتے ہوئے

اک جہاں جنگ کی چوٹ کھاتے ہوئے 

ہم ملیں گے کہیں 

روس کی داشتاؤں کی جھوٹی کہانی پہ 

آنکھوں میں حیرت سجائے ہوئے 

شام، لبنان، بیروت کی 

نرگسی چشم حوروں کی آمد کے نوحوں پہ ہنستے ہوئے 

خونی قضیوں سے مفلوج البانیہ کے 

پہاڑی علاقوں میں مہمان بن کر ملیں گے 

ہم ملیں گے کہیں 

ایک مردہ زمانے کی خوشرنگ تہذیب میں 

جذب ہونے کے امکان میں 

اک پرانی عمارت کے پہلو میں 

اجڑے ہوئے لان میں 

اور اپنے اسیروں کی راہ دیکھتے 

پانچ صدیوں سے ویران زندان میں 

ہمیں ملیں گے تمناؤں کی چھتریوں کے تلے

خواہشوں کی ہواؤں کے بے باک بوسوں سے

چھلنی بدن سونپنے کے لیے راستوں کو

ہم ملیں گے زمیں سے نمودار ہوتے ہوئے 

آٹھویں براعظم میں اڑتے ہوئے قالین پر

ہم ملیں گے کسی بار میں 

اپنی بقایا عمر کے پائمالی کے جام ہاتھ میں لیں گے 

اور ایک ہی گھونٹ میں ہم یہ سیال اندر اتاریں گے

اور ہوش آنے تلک گیت گائیں گے

بچپن کے قصے سناتا ہوا گیت جو آج بھی ہم کو ازبر ہے 

بیڑی وے بیڑی توں ٹھلدی تے پئی ایں 

پتے پار کیا ہے پتے پار کیا ہے

بیڑی وے بیڑی توں کھلدی تے پئی ایں 

پتے پار کیا ہے پتے پار کیا ہے

ہم ملیں گے کہیں 

باغ میں، گاؤں میں، دھوپ میں، چھاؤں میں

ریت میں، دشت میں، شہر میں

مسجدوں میں، کلیسوں میں، مندر میں

محراب میں، چرچ میں 

موسلادھار بارش میں، بازار میں

خواب میں، آگ میں 

گہرے پانی میں، گلیوں میں، جنگل میں 

اور آسمانوں میں 

کون و مکاں سے پرے غیر آباد سیارۂ آرزو میں

صدیوں سے خالی پڑی بینچ پر

جہاں موت بھی ہم سے دست و گریبان ہو گی

تو بس ایک دو دن کی مہمان ہو گی


تہذیب حافی

No comments:

Post a Comment