ہم ملیں گے کہیں
اجنبی شہر کی خواب ہوتی ہوئی شاہراؤں پہ
اور شاہراؤں پہ پھیلی ہوئی دھوپ میں
ایک دن ہم کہیں ساتھ ہوں گے
وقت کی آندھیوں سے اٹی ساعتوں پر سے مٹی ہٹاتے ہوئے
ایک ہی جیسے آنسو بہاتے ہوئے
ہم ملیں گے گھنے جنگلوں کی ہری گھاس پر
اور کسی شاخ نازک پہ پڑتے ہوئے بوجھ کی داستانوں میں کھو جائیں گے
ہم صنوبر کے پیڑوں کے نوکیلے پتوں سے
صدیوں سے سوئے ہوئے دیوتاؤں کی آنکھیں چبھو جائیں گے
ہم ملیں گے کہیں برف کے بازوؤں میں گھرے پربتوں پر
بانجھ قبروں میں لیٹے ہوئے کوہ پیماؤں کی یاد میں نظم کہتے ہوئے
جو پہاڑوں کی اولاد تھے اور انہیں وقت آنے پہ
ماں باپ نے اپنی آغوش میں لے لیا
ہم ملیں گے شاہ سلیمان کے عرس میں
حوض کی سیڑھیوں پر
وضو کرنے والوں کے شفاف چہروں کے آگے
سنگ مرمر سے آراستہ فرش پر پیر رکھتے ہوئے
آہ بھرتے ہوئے اور
درختوں کو منت کے دھاگوں سے آزاد کرتے ہوئے
ہم ملیں گے کہیں نارمنڈی کے ساحل پہ آتے ہوئے
اپنے گم گشتہ رستوں کی خاک سفر سے اٹی
وردیوں کے نشاں دیکھ کر
مراکش سے پلٹے ہوئے ایک جرنیل کی
آخری بات پر مسکراتے ہوئے
اک جہاں جنگ کی چوٹ کھاتے ہوئے
ہم ملیں گے کہیں
روس کی داشتاؤں کی جھوٹی کہانی پہ
آنکھوں میں حیرت سجائے ہوئے
شام، لبنان، بیروت کی
نرگسی چشم حوروں کی آمد کے نوحوں پہ ہنستے ہوئے
خونی قضیوں سے مفلوج البانیہ کے
پہاڑی علاقوں میں مہمان بن کر ملیں گے
ہم ملیں گے کہیں
ایک مردہ زمانے کی خوشرنگ تہذیب میں
جذب ہونے کے امکان میں
اک پرانی عمارت کے پہلو میں
اجڑے ہوئے لان میں
اور اپنے اسیروں کی راہ دیکھتے
پانچ صدیوں سے ویران زندان میں
ہمیں ملیں گے تمناؤں کی چھتریوں کے تلے
خواہشوں کی ہواؤں کے بے باک بوسوں سے
چھلنی بدن سونپنے کے لیے راستوں کو
ہم ملیں گے زمیں سے نمودار ہوتے ہوئے
آٹھویں براعظم میں اڑتے ہوئے قالین پر
ہم ملیں گے کسی بار میں
اپنی بقایا عمر کے پائمالی کے جام ہاتھ میں لیں گے
اور ایک ہی گھونٹ میں ہم یہ سیال اندر اتاریں گے
اور ہوش آنے تلک گیت گائیں گے
بچپن کے قصے سناتا ہوا گیت جو آج بھی ہم کو ازبر ہے
بیڑی وے بیڑی توں ٹھلدی تے پئی ایں
پتے پار کیا ہے پتے پار کیا ہے
بیڑی وے بیڑی توں کھلدی تے پئی ایں
پتے پار کیا ہے پتے پار کیا ہے
ہم ملیں گے کہیں
باغ میں، گاؤں میں، دھوپ میں، چھاؤں میں
ریت میں، دشت میں، شہر میں
مسجدوں میں، کلیسوں میں، مندر میں
محراب میں، چرچ میں
موسلادھار بارش میں، بازار میں
خواب میں، آگ میں
گہرے پانی میں، گلیوں میں، جنگل میں
اور آسمانوں میں
کون و مکاں سے پرے غیر آباد سیارۂ آرزو میں
صدیوں سے خالی پڑی بینچ پر
جہاں موت بھی ہم سے دست و گریبان ہو گی
تو بس ایک دو دن کی مہمان ہو گی
تہذیب حافی
No comments:
Post a Comment