Friday, 9 December 2022

ہر قدم اک نئے آزار پہ رکھ دیتا ہوں

 ہر قدم اک نئے آزار پہ رکھ دیتا ہوں

خار سے بچتا ہوں انگار پہ رکھ دیتا ہوں

پھول پھینکے کوئی دیوار کے پیچھے سے اگر

پھر اٹھا کر اسے دیوار پہ رکھ دیتا ہوں

جنگجو ایسا کہ خود ہارتا ہوں ہر بازی

اور الزام میں تلوار پہ رکھ دیتا ہوں

وہ جو اک بار چبھا تھا کبھی دل میں میرے

دل کو ہر بار اسی خار پہ رکھ دیتا ہوں

روز اک خواہشِ نو لے کے نکلتا ہوں مگر

پھر سلگتے ہوئے انبار پہ رکھ دیتا ہوں

حاکمِ شہر ہے اس بات پہ نالاں مجھ سے

میں جھکاتا نہیں سر، دار پہ رکھ دیتا ہوں

روز بِکتا ہوں ضرورت کے عوض میں اختر

اور قیمت بھی خریدار پہ رکھ دیتا ہوں


اختر عبدالرزاق​

No comments:

Post a Comment