ہر قدم اک نئے آزار پہ رکھ دیتا ہوں
خار سے بچتا ہوں انگار پہ رکھ دیتا ہوں
پھول پھینکے کوئی دیوار کے پیچھے سے اگر
پھر اٹھا کر اسے دیوار پہ رکھ دیتا ہوں
جنگجو ایسا کہ خود ہارتا ہوں ہر بازی
اور الزام میں تلوار پہ رکھ دیتا ہوں
وہ جو اک بار چبھا تھا کبھی دل میں میرے
دل کو ہر بار اسی خار پہ رکھ دیتا ہوں
روز اک خواہشِ نو لے کے نکلتا ہوں مگر
پھر سلگتے ہوئے انبار پہ رکھ دیتا ہوں
حاکمِ شہر ہے اس بات پہ نالاں مجھ سے
میں جھکاتا نہیں سر، دار پہ رکھ دیتا ہوں
روز بِکتا ہوں ضرورت کے عوض میں اختر
اور قیمت بھی خریدار پہ رکھ دیتا ہوں
اختر عبدالرزاق
No comments:
Post a Comment