کس نے رودادِ غم سنی ہے دوست
شہر کا شہر مطلبی ہے دوست
شب کے بُجھتے ہوئے چراغوں کی
کیوں ہواؤں سے دوستی ہے دوست
کس طرح کوئی غم چھپاؤں میں
ماں تو چہرے کو دیکھتی ہے دوست
ہم نے تیری گلی کو جاتے ہوئے
راستوں پر ہی عید کی ہے دوست
آنکھ سے دیکھنے کو مت دیکھو
بس یہی رمزِ آگہی ہے دوست
ہجر کے نوِشتوں میں لکھا ہے
عشق کا رنگ ماتمی ہے دوست
سال، گھڑیال سب پیادے ہیں
عمر شطرنج کھیلتی ہے دوست
یہ دعا کر کہ کچھ سہولت ہو
زندگی موت مانگتی ہے دوست
چند آیاتِ وصل کو پڑھ کر
میری وحشت بھی ہنس پڑی ہے دوست
ہم سے بچھڑے ہوئے نہیں لَوٹے
لَوٹ کر عید آ گئی ہے دوست
اک پرندے کی آخری خواہش
مجھ سے اک پیڑ نے کہی ہے دوست
روشنی کا سوال کس سے کریں
سب چراغوں میں تیرگی ہے دوست
صبر، گریہ سے لاکھ بہتر ہے
خامشی، چیخ سے بڑی ہے دوست
دستِ الام سے پلائی گئی
میں نے مرضی سے تھوڑی پی ہے دوست
وقت اوقات میں نہیں رہتا
ایک لمحے میں اک صدی ہے دوست
شاعری لاش کا تعفّن ہے
نظم سے باس اُٹھ رہی ہے دوست
جسم کھنڈر نما حویلی ہے
جس میں اک یاد بس رہی ہے دوست
جاناں شاہ
No comments:
Post a Comment