عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جب نکل کر میں مکاں سے لامکاں میں آ گیا
ذکر میرا بھی حدیثِ دیگراں میں آ گیا
کہہ نہیں سکتا کہ کتنی دور چل پاؤں گا میں
آبلہ قدموں سے چل کر اب زباں میں آ گیا
موت بھی آئی اچانک، اور وہ بھی آ گئے
اک انوکھا لطف مرگِ ناگہاں میں آ گیا
زادِ راہ لے کے چلے تھے لوگ جب سُوئے حرم
قلبِ مُضطر لے کے میں بھی کارواں میں آ گیا
گنبدِ خضریٰ کو دیکھا دُور سے ، تو یوں لگا
اک نیا مہ تاب جیسے آسماں میں آ گیا
عاقبت کی فکر ہے اور نہ اُمیدِ نجات
میں مدینے میں ہوں یا باغِ جناں میں آ گیا
بے نمازی بھی مدینے میں نمازی بن گئے
جب بلالی سوز آوازِ اذاں میں آ گیا
آپؐ اس ظلمت کدے میں جلوہ فرما جب ہوئے
نور کا عالم زمین و آسماں میں آ گیا
بے نوا و بے ہنر احمد سے ہوتا اور کیا
نعت لے کر نذر بزمِ عاشقاں میں آ گیا
غوث خواہ مخواہ
خواہ مخواہ حیدرآبادی
No comments:
Post a Comment