Sunday 11 December 2022

جب نکل کر میں مکاں سے لامکاں میں آ گیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جب نکل کر میں مکاں سے لامکاں میں آ گیا

ذکر میرا بھی حدیثِ دیگراں میں آ گیا

کہہ نہیں سکتا کہ کتنی دور چل پاؤں گا میں

آبلہ قدموں سے چل کر اب زباں میں آ گیا

موت بھی آئی اچانک، اور وہ بھی آ گئے

اک انوکھا لطف مرگِ ناگہاں میں آ گیا

زادِ راہ لے کے چلے تھے لوگ جب سُوئے حرم

قلبِ مُضطر لے کے میں بھی کارواں میں آ گیا

گنبدِ خضریٰ کو دیکھا دُور سے ، تو یوں لگا

اک نیا مہ تاب جیسے آسماں میں آ گیا

عاقبت کی فکر ہے اور نہ اُمیدِ نجات

میں مدینے میں ہوں یا باغِ جناں میں آ گیا

بے نمازی بھی مدینے میں نمازی بن گئے

جب بلالی سوز آوازِ اذاں میں آ گیا

آپؐ اس ظلمت کدے میں جلوہ فرما جب ہوئے

نور کا عالم زمین و آسماں میں آ گیا

بے نوا و بے ہنر احمد سے ہوتا اور کیا

نعت لے کر نذر بزمِ عاشقاں میں آ گیا


غوث خواہ مخواہ 

خواہ مخواہ حیدرآبادی

No comments:

Post a Comment