سید تمہارے غم کی کسی کو خبر نہیں
ہو بھی خبر کسی کو تو سمجھو خبر نہیں
موجود ہو تو کس لیے مفقود ہو گئے
کن جنگلوں میں جا کے بسے ہو خبر نہیں
اتنی خبر ہے پھول سے خوشبو جدا ہوئی
اس کو کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ خبر نہیں
دل میں ابل رہے ہیں وہ طوفاں کہ الاماں
چہرے پہ وہ سکون ہے مانو خبر نہیں
دیکھو تو ہر بغل میں ہے دفتر دبا ہوا
اخبار میں جو چھاپنا چاہو خبر نہیں
نوک زباں ہیں تم کو شرابوں کے نام سب
لیکن نشے کی بادہ پرستو خبر نہیں
کاغذ زمین شور قلم شاخ بے ثمر
کس آرزو پہ عمر گزارو خبر نہیں
سید کوئی تو خواب بھی تصنیف کیجیے
ہر بار تم یہی نہ سناؤ خبر نہیں
مظفر علی سید
No comments:
Post a Comment