یوں لگتا ہے اٹھتا ہوا طوفان وہی ہے
کشتی کو سنبھالو کہ پھر امکان وہی ہے
مائل وہ ہوئے بھی ہیں تو کس طرح میں جانوں
یارو! درِ دولت پہ تو دربان وہی ہے
اس دور کے انساں پہ نئی رائے نہ تھوپو
اچھا یا برا جیسا ہے انسان وہی ہے
اس بار بہاروں میں کمی تو نہ تھی لیکن
گلشن کے مہک اٹھنے کا ارمان وہی ہے
اے بلبلِ شوریدہ، بہاروں پہ نہ خوش ہو
تو سمجھی جسے فائدہ، نقصان وہی ہے
ظفر نیازی
No comments:
Post a Comment