Monday, 12 December 2022

یوں لگتا ہے اٹھتا ہوا طوفان وہی ہے

 یوں لگتا ہے اٹھتا ہوا طوفان وہی ہے

کشتی کو سنبھالو کہ پھر امکان وہی ہے

مائل وہ ہوئے بھی ہیں تو کس طرح میں جانوں

یارو! درِ دولت پہ تو دربان وہی ہے

اس دور کے انساں پہ نئی رائے نہ تھوپو

اچھا یا برا جیسا ہے انسان وہی ہے

اس بار بہاروں میں کمی تو نہ تھی لیکن

گلشن کے مہک اٹھنے کا ارمان وہی ہے

اے بلبلِ شوریدہ، بہاروں پہ نہ خوش ہو

تو سمجھی جسے فائدہ، نقصان وہی ہے


ظفر نیازی

No comments:

Post a Comment