کہا غموں نے آنسوؤں سے آئیے! تو آ گئے
سپاہیوں کو افسروں کے خط ملے تو آ گئے
ہمارے دل کا شہر ہے، تمہارا گاؤں تو نہیں
کہ سال بھر میں جب تمہارا دل کرے تو آ گئے
ان آنسوؤں کے راستے، سکول کا سفر ہوئے
گھروں سے چل نہیں رہے تھے، چل پڑے تو آ گئے
ہمارا اور کبوتروں کا مشترک اصول ہے
غروبِ آفتاب تک جو آ گئے تو آ گئے
وہ کہہ رہا تھا دوسروں کا مجھ سے کیا مقابلہ
کوئی اسے بتائے! ہائے، دوسرے تو آ گئے
دعا سلام اس قدر ہے پتھروں سے دشت کے
ذرا کسی نے کہہ دیا کہ آئیے! تو آ گئے
کسی کا کوئی ہوتا ہے تو آتا ہے نا بے دھڑک
مسافتوں کے رات دن، ہمارے تھے تو آ گئے
عین عمر
No comments:
Post a Comment