سیاہی شب کی آنکھوں میں اگر اکسیر رہ جائے
مری آنکھوں میں میرے خواب کی تصویر رہ جائے
تمہیں جانا ہے تو جاؤ مگر یہ دھیان میں رکھنا
کہ دروازے پہ بس ہلتی ہوئی زنجیر رہ جائے
مِری ایسے ہی شاید کربلا والوں سے نسبت ہو
کہیں اٹکا ہوا زخموں میں کوئی تیر رہ جائے
تمہارا کیا تمہارے پاس تو دولت ہے دنیا ہے
ہمارے پاس خوابوں کی کوئی جاگیر رہ جائے
زمانے میں محبت بانٹنے کا فائدہ کیا ہے
تمہارا چاہنے والا اگر دل گیر رہ جائے
اُسے منزل نہیں ملتی ہے خالد زندگانی میں
بھٹک کر جو بھی اپنی راہ سے رہگیر رہ جائے
خالد سجاد احمد
No comments:
Post a Comment