بکھرتے رابطوں کا ہے، بچھڑتے راستوں کا ہے
نومبر نام ہے جس کا مہینہ حادثوں کا ہے
کہیں ہے آس کا بادل کہیں یادوں کی بوندیں ہیں
مچلتی خواہشوں کا ہے، یہ موسم بارشوں کا ہے
وہی مے کش ہوائیں ہیں وہی گم صم فضائیں ہیں
مِری پُر امن دنیا میں یہ موسم سازشوں کا ہے
پرانے عارضے سارے، امڈ آئے ہیں آنکھوں میں
یہ موسم ہے سرابوں کا یہ موسم وسوسوں کا ہے
وہی سب رت جگے ابرک، وہی تیرے گلے ابرک
کہ اس کے بعد بھی ہر پل اسی کی وحشتوں کا ہے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment