جس قدر حکمت عملی تھی الٹ کر آیا
درد اجڑے ہوئے رستوں پہ پلٹ کر آیا
زرد چہرے پہ ذرا سرخی نہ تھی حالانکہ
ایک اک قطرہ مِرے خوں کا سمٹ کر آیا
تم ابھی ٹھہرو مسرت بھرے پل کی یادو
میں ذرا اپنی اداسی سے نمٹ کر آیا
میری خواہش تھی کہ ہو تجھ سے برابر کا سلوک
تو ہمیشہ ہی مقابل مِرے گھٹ کر آیا
میں نے دیکھا ہی نہیں چاند مکمل فرحت
میری دیوار پہ آیا بھی تو بٹ کر آیا
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment