Wednesday, 1 March 2023

یہ شہر جو سمجھے ہوئے درویش مجھے ہے

 یہ شہر جو سمجھے ہوئے درویش مجھے ہے 

اک طرفہ تماشا ہے کہ درپیش مجھے ہے 

میں پہلے تجھے چھو کے گنہگار بنوں کیوں 

جو حکم تجھے ہے وہی آدیش مجھے ہے 

جب تک میرے ہونے پہ کوئی حرف نہ آئے 

منظور ہر اک زیر، زبر، پیش مجھے ہے 

تجھ کو بھی مِرے دیس کی حرمت کا ہو احساس 

اس شرط پہ منظور تِرا دیش مجھے ہے 

تُو ساتھ مِرے ڈوبتا جائے گا کہاں تک 

اک غم کا سمندر ہے جو درپیش مجھے ہے 

وہ خوش ہے بہت جلد بھلا کر مجھے توقیر 

ہاہا، یہی عادت تو کم و بیش مجھے ہے


توقیر رضا

No comments:

Post a Comment