غمِ دوراں سے جو آزاد کرو گے مجھ کو
کیا کسی دشت میں آباد کرو گے مجھ کو
جاتے جاتے تِرے دل میں کہیں رہ جاؤں گا
جانتا ہوں کہ بہت یاد کرو گے مجھ کو
تم سے ہو گا نہ مداوا مِرے دکھ کا، لیکن
اپنے غم سونپ کے کچھ شاد کرو گے مجھ کو
اب یہ مکمن ہے کہ مانوسِ قفس ہو جاؤں
کب رہا دام سے صیاد کرو گے مجھ کو
غم کا میلہ ہے مِری آنکھ سے دیکھو یہ جہاں
شاد کیا اے دلِ ناشاد کرو گے مجھ کو
اب جو اندازِ ستم ہو تو انوکھا ہو کوئی
کیا اسی طرز سے برباد کرو گے مجھ کو
آج دیتے ہو بہت داد مگر اہلِ سخن
کل نہ ہوں گا بھی تو کیا یاد کرو گے مجھ کو
شجاعت سحر جمالی
No comments:
Post a Comment