وہ جنگ تھی یا کھیل جنوں کھا گیا اعصاب
باقی نہیں جینے کی رمق لہجے ہیں برفاب
حاکم کے لیے موت ہے وہ دورِ حکومت
جس میں نہ رہے فرق پسینہ ہے کہ ہے آب
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے جم خانوں کی رونق
ویران مساجد ہوئیں، چپ منبر و محراب
زلفوں کو ہے چہرے سے ہٹاتا ہوا محبوب
لگتا ہے مجھے ابر سے لڑتا ہوا مہتاب
دروازے پہ جا جا کے تجھے دیکھتے رہنا
شاید کوئی اپنا چکے ہم صورتِ سیماب
بچپن کے بڑھاپے کے حقائق سے کہیں دور
اُلفت ہے جوانی کے فسانے کا حسیں باب
دیکھا تجھے غیروں کے جو پہلو میں لگا یوں
جیسے کسی چہرے پہ کوئی پھینک دے تیزاب
اغیار کے چہروں پہ شرارت کی جھلک ہے
معلوم نہیں آج ہمیں نیتِ احباب
احمد! تمہیں پاگل ہی کہے گا یہ زمانہ
دیکھو گے اگر جاگتی آنکھوں سے کوئی خواب
شکیل احمد
No comments:
Post a Comment