کھلیں گلاب تو آنکھیں کھلیں اچنگ چلے
پون چلے تو مہک اس کے سنگ سنگ چلے
ہے میرا سوچ سفر فلسفے کے صحرا میں
ہوا کے دوش پہ جیسے کٹی پتنگ چلے
کسی کا ہو کے کوئی کس طرح رہے اپنا
رہِ سلوک پہ جیسے کوئی ملنگ چلے
طویل رات ہے، بھیگی سحر ہے، ٹھنڈی شام
بڑے ہوں تھوڑے سے دن تو بسنت رنگ چلے
وہ دور ہوں تو کٹے ساری رات آنکھوں میں
قریب آئیں تو قلب و نظر میں جنگ چلے
چلے ازل سے ابد کے لیے تو رستے ہیں
پڑاؤ دنیا میں ڈالا کہ کچھ درنگ چلے
خلا نورد ہیں ایسے بھی جو ستاروں میں
بنا کے تیشۂ فرہاد سے سرنگ چلے
سید فخرالدین بلے
No comments:
Post a Comment