وعدے محبتوں کے کچھ ایسے نبھائے ہیں
ہم قتل ہونے کوچۂ قاتل میں آئے ہیں
خوشبو تِرے وصال کی پھیلی ہے چار سُو
کن کن جگہوں پہ تُو نے ٹھکانے بنائے ہیں
آنسو لہو میں ڈوب گئے تو خبر ہوئی
طوفان دل نے درد کے کیا کیا اٹھائے ہیں
تیری محبتوں کے نشے بھی عجیب ہیں
ہم ہوش میں تھے پھر بھی قدم لڑکھڑائے ہیں
پکے مکاں کی وحشتوں کو دیکھ دیکھ کر
اب ہم نے خواہشوں کے گھروندے بنائے ہیں
یہ زندگی کسی کی امانت ہے دوستو
گن کے بتاؤ جتنے بھی لمحے گنوائے ہیں
شام غریباں تم نے تو دیکھی نہیں کبھی
بس اس خیال سے ہی تمہیں دکھ سنائے ہیں
رضیہ اسماعیل
No comments:
Post a Comment