کئی صد ہزار برس کے خواب
ترے در سے گزرا تھا بارہا
وہ کھلا نہیں
وہاں در پہ پہرہ لگا تھا گردشِ حال کا
میں تِرے طلسم میں بند تھا
مجھے تھا کسی سے نہ اپنے آپ سے واسطہ
فقط ایک نوحۂ بے اماں تھا سکوت میں
وہ سکوت جس میں بھنور صداؤں کے بے شمار
وہی گونجتے تھے وجود میں
کوئی چشمِ شوق کو واقعے
سرِ راہ اب بھی مِلا نہیں
تو گِلہ نہیں
کہ میں اپنی ذات کی انجمن میں ہر اک سے محوِ کلام ہوں
مِرے حال کی نہ اسے خبر نہ اسے خبر
کہ یہ لوگ
سادہ غریب مخلص و چارہ ساز
یہی لوگ حرص میں مبتلا جو نکالیں کام فریب سے
نہ ہو ان سا کوئی زمانہ ساز
کبھی ان میں زہرِ انا کا ہے کبھی وہم کا کبھی جہل کا
کبھی سانپ اندھی عقیدتوں کے لپٹ گئے
ہمہ وقت رہتی ہے سیم و زر کی طلب انہیں
کہ یہ خواجگانِ ورم سے رکھتے ہیں ساز باز
جنہیں بندگان ورم کہیں تو بجا کہیں
کہ وہ خواجہ کیا ہیں ورم کی کرتے ہیں بندگی
انہیں مجھ سے ملنے کا شوق کیا
یہ وہ لوگ ہیں جو نہ اپنے آپ سے مل سکے
یہ انہیں کے بارے میں تھا جو کھلا صحیفۂ ہست و بود
یہ بدلتے چہروں کے لوگ
جن کا نہ اپنا چہرہ نہ خال و خط
اسی کارواں میں شریک ہیں جو امید وہم کی راہ میں
کئی صد ہزار برس سے ہے
کئی بار ابھرے ہیں گرد سے
کئی بار دھواں میں اٹ گئے
وہ جو خواب تھے
کئی صد ہزار برس کے خواب
جو یقیں نہ تھے جو گماں نہ تھے
وہ جو ان کے اپنے نگاہ و دل پہ عیاں نہ تھے
کہ عیاں ہوئے تو بکھر گئے
مگر ان کا اپنا وجود تھے
لہو بن کے ان کی رگوں میں پیہم رواں بھی تھے
تیرا در تو اب بھی کھلا نہیں
مگر اک امید کا در کھلا
کئی صد ہزار برس کا عرصہ انتظار گزر گیا
وہ جو خواب تھے وہ جو خواب ہیں
وہی خواب دل میں اتر پڑے
نیا رنگ ہے شب و روز کا
نئی تابشِ مہ و سال ہے
ہوتے سب کے خواب جو میرے خواب
عجب اس میں لطفِ وصال ہے
انجم اعظمی
No comments:
Post a Comment