Wednesday, 10 April 2024

نام ایسی بھی ہمارے ہے کوئی عید کہاں

 لب پہ آ جائے تو حق بات کی تردید کہاں

ڈھانپ سکتے ہو بھلا گرد میں خورشید کہاں

ڈوبنے والوں نے جو ہاتھ، ہلائے سرِ آب

ظلم کے حق میں ٹھہرتی ہے وُہ تائید کہاں

شہر میں عام ہے جو خون خرابے کی فضا

دیکھیے لے کے ہمیں جائے یہ تمہید کہاں

وُہ جو قزّاق ہے کیا رحم کی خواہش اُس سے

راہ پر لائے گی اُس کو کوئی تاکید کہاں

ہاتھ بچے کے ہو جیسے کوئی ناؤ ماجد

نام ایسی بھی ہمارے ہے کوئی عید کہاں


ماجد صدیقی

No comments:

Post a Comment