Saturday, 1 June 2024

عجز کی آخری سرحد پہ کھڑا ہے بندہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


عجز کی آخری سرحد پہ کھڑا ہے بندہ

عشقِ معبودِ حقیقی کی رما کر دھونی

ایک گلزار سرِ بزمِ نگارِ رحمت

ایک تمثیل کہ کردار ہیں جس کے زندہ

اُس کے تذکار سے روشن ہے ازل کا سینہ

اُس کے افکار سے مہکا ہے ابد کا گلشن

اُس کے ہر عکس سے پھوٹی ہے اُجالوں کی کرن

اُس کی کملی ہے کہ انوارِ درخشاں کی مثال

گُنگناتا ہوا دریا ہے محبت کا وہی

مُسکراتا ہُوا وہ طاقِ صداقت کا چراغ

نغمۂ جود و سخا ہے سرِ مضرابِ یقین

اُس کا ہر نقش ہے تفسیرِ حیاتِ ابدی

اُس کا دامانِ کرم سارے زمانوں پہ محیط

بُجھتی آنکھوں کو بھی منظر وہ سہانے دے گا

میرے ہر لفظ کو معنی کے خزانے دے گا


ریاض حسین چودھری

No comments:

Post a Comment