Friday 14 June 2024

کچھ بھی کر سکتا نہیں تدبیر سے

 کچھ بھی کر سکتا نہیں تدبیر سے

آدمی مجبور ہے تقدیر سے

ٹکڑے کیوں کرتے ہو دلِ شمشیر سے

توڑو یہ شیشہ نگہ کے تیر سے

جم سکی رنگت نہ بزم غیر میں

اکھڑی اکھڑی آپ کی تقریر سے

عاشقوں پر ظلم کرنے کے سوا

اور کیا آتا ہے چرخِ پیر سے

کیوں مرید عشق اے وحشت نہ ہوں

سلسلہ ملتا ہے یہ زنجیر سے

لو تواضع کا کمانوں سے سبق

راہ کرنا دل میں سیکھو تیر سے

قابل تیغ ادا کیا ہم نہیں

کاٹتے ہو کیوں گلا شمشیر سے

میں تو دلداہ فصاحت کا ہوں بزم

کیوں نہ ہو الفت کلام، میر سے


بزم آفندی

No comments:

Post a Comment