Friday 14 June 2024

منزل جاں کے اجالوں کا اشارا کھو گیا

 منزلِ جاں کے اجالوں کا اشارا کھو گیا

راستوں کی بھیڑ میں راہی بچارا کھو گیا

بہتے دریا کے بدن کی بے لباسی دیکھنا

ناؤ طوفانوں سے الجھی اور کنارا کھو گیا

روشنی میں آ گئے جب رات کے کالے پہاڑ

صُبح کی گُل رنگ وادی کا نظارا کھو  گیا

باغ کے پُھولوں کی خُوشبو میں اُلجھ کر رہ گئے

موسموں کا خُوبصورت استعارا کھو گیا

فکر تہ داریوں کے حُسن کی سرگرمیاں

تجزیے کا مسئلہ سارے کا سارا کھو گیا

کچھ دنوں سے رنگ پر ہے عُمر کے آخر کا کھیل

بُجھ گئے روشن دِیے جینے کا یارا کھو گیا

آنسوؤں کی راہ کھوٹی ہو رہی ہے اے رئیس

رہبری کے شوق میں آنکھوں کا تارا کھو گیا


رئیس الشاکری

No comments:

Post a Comment