جن کا دعویٰ ہے وہ کرتے ہیں امامت قوم کی
کیسے قبضاتے ہیں وہ رہزن وراثت قوم کی
کس قدر حیران کُن مُرشد کی شب کے خواب ہیں
وہ اجارہ دار بننے کے لیے بے تاب ہیں
فاتحِ ندوہ کے قصے خوب رنگ آمیز ہیں
بہر صورت سیرت و کردار معنی خیز ہیں
کارواں ان کے مُریدوں کا ہُوا فالج زدہ
"ہے طبیب وقت پہ ان کا علاج اک طے شدہ"
قشقہ دھاری پنڈتوں کے چُوم کر نقشِ قدم
چل رہے ہیں دھیرے دھیرے، رفتہ رفتہ، دم بہ دم
شبلی و سید سلیماں کا چمن ویران ہے
لوٹ آئیں گی بہاریں کیا ابھی اِمکان ہے
کامیابی کو ہے نسخہ کارگر بالاختصار
جس کی طاقت، اس کی آزادی، اسی کا اعتبار
کہہ رہی ہے تجھ سے کیا حیدر یہ ندوے کی فضا
وقت بدلا، باغباں بدلا، یہ پل میں کیا ہُوا
حیدر ندوی
No comments:
Post a Comment