Friday 14 June 2024

ڈرتا رہتا ہوں ہم نشینوں میں

 ڈرتا رہتا ہوں ہم نشینوں میں

ایک پتھر ہوں آبگینوں میں

بات کرنا جنہیں نہیں آتی

آج وہ بھی ہیں نکتہ چینوں میں

جو بھنور کو سمجھتے ہیں ساحل

ایسے بھی لوگ ہیں سفینوں میں

محتسب گِن لے انگلیوں ہی پر

چند ہی رِند ہیں کمینوں میں

خضر گزرے تھے شہر سے اپنے

ہم بھی تھے ایک راہ بینوں میں

بیعتِ حق کی بات کیا کرتے

ہاتھ لرزاں تھے آستینوں میں

فیضِ شہرِ انیس سے سالک

شعر کہتے ہیں ان زمینوں میں


سالک لکھنوی

No comments:

Post a Comment