کاش
کاش کے تم کو بتائیں ہم
تجھ پہ اس طرح سے حق جتائیں ہم
بے چارگی کو اپنی
تجھ میں کھو کر تجھے دکھائیں ہم
تُو جو بول دے تو فلک کے سمت
یہ رُکی ہوئی ہوا کی سمت
یہ عرش کی روش میں ہم
ایسا کوئی رستہ نکال دیں
بنے جو تیرے جمیل میں
عروج کی تکمیل میں
تیرا قرض ہم جو اتار دیں
پھر ایسا حلیہ بگاڑ لیں
تُو منع کرے اور پھر بھی ہم
لباس کو تن سے اُکھاڑ لیں
اندھیر بھرے نگر میں ہم
قسمت کی وحشت اتار لیں
روکے جو تُو قریب سے
پھر حصار نیا باندھ لیں
تُو بلا بلا کر کہے ہمیں
میرے داغ کو مٹا دو تم
میرے نگر کی گر ٹھان لو تم
طوبیٰ سہیل
No comments:
Post a Comment