عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
عدم کو جس نے وجود بخشا
وجود کو پھر نمود بخشا
نمود کو تازگی عطا کی
عطا کی حد حشر سے ملا دی
ہر ایک ذرہ کو زندگی دی
شعور کو جس نے آگہی دی
وہ جس کا ہر شے پہ نام ہے کندہ
وہ کون ہے جس کا میں ہوں بندہ
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
یہ آسماں یہ برستا ساون
یہ لہلہاتا مہکتا گلشن
یہ سبزہ و گل کا نرم بستر
یہ کہکشاں کی حسین چادر
یہ چاند سورج چمکتے تارے
حسین قدرت کے یہ نظارے
دمکتے ہیں کس کی چاہ میں یہ
مہکتے ہیں کس کی راہ میں یہ
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
وہ نور جس میں ہے نور اس کا
وہ فہم جس میں شعور اس کا
وہ آنکھ جس سے وہ دیکھتا ہے
زبان جس سے وہ بولتا ہے
جو جلوہ نور کبریا ہے
تمام عالم کا آسرا ہے
زمیں پہ رحمت کا آسماں ہے
فلک پہ کس کا وہ مہماں ہے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
زمین ہے نہ یہ آسماں ہے
عجیب عالم عجب سماں ہے
نہاں نہیں ہے نہ وہ عیاں ہے
ہے کوئی موجود پر کہاں ہے
ادھر یقیں ہے ادھر گماں ہے
بس ایک پردہ سا درمیاں ہے
نکل رہے ہیں یہ کس کے بازو
سمٹ رہی ہے حد من و تو
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
محمدؐ مصطفیٰﷺ سے پہلے
قدم کسی کے یہاں نہ پہنچے
یہاں سے بھی کچھ ذرا سا آگے
جہاں پہ جلوے ہیں لا مکاں کے
جو نطق کو ساز دے رہا ہے
نبیﷺ کو آواز دے رہا ہے
شناسا لگتا ہے لہجہ جس کا
یہ کون ہے کیا ہے نام اس کا
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
یہاں میانے خدائے بندہ
وجود ممکن نہیں کسی کا
یہاں سے مہماں کا ساتھ دینے
نبی کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے
جو نور پیکر میں ڈھل رہا ہے
یہ ہاتھ جس کا نکل رہا ہے
خدا نما ہے کہ یہ خدا ہے
خدا نہیں ہے تو اور کیا ہے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
خدایا مجھ کو معاف کردے
نگاہ میں حق کا نور بھردے
یہ پردہ درمیاں اٹھا دے
حقیقت مرتضیٰ دکھا دے
حبیب کا واسطہ ہے تجھ کو
الٰہی اتنا بتا دے مجھ کو
جو تجھ سے منسوب تیرا در ہے
تیرا ہی ہے یا علیؑ کا گھر ہے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
مکاں ہے یہ کہ لا مکاں ہے
کسے پتا تیری حد کہاں ہے
کوئی نہیں اور جس سے پوچھے
نہ تجھ سے پوچھوں تو کس سے پوچھوں
گھٹا کی صورت میں لوگ گھر کے
جدار کعبہ کے گرد پھر کے
یہ کس کو سجدہ گزارتے ہیں
یہ کس کو آخر پکارتے ہیں
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
ندا یہ آئی نہ بہکو اتنا
زباں کھولو ہے علم جتنا
وہ بستر نور جس پہ سو کر
وہ ہاتھ جن پر بلند ہو کر
زمین سے میں آسماں ہوا ہوں
ورائے وہم و گماں ہوا ہوں
وہ اصل ہے اور اصول ہوں میں
شریک نُور رسولؑ ہوں میں
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
وہ نور میں جب کہ ڈھل رہا تھا
میں ساتھ کروٹ بدل رہا تھا
فلک سے جب وہ زمیں پہ آیا
میں آيا ساتھ اس کے بن کے سایا
وہ عرش پہ جب کہ مہماں تھا
وہاں پہ میں شکل میزباں تھا
کہیں پہ چھوڑا نہ ساتھ اس کا
ہے کب سے ہاتھوں میں ہاتھ اس کا
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
علی محمد رضوی
No comments:
Post a Comment