زندہ لاشیں
یہ کیسے لوگ ہیں
جن کو خوشی محسوس ہوتی ہے نہ کوئی غم ستاتا ہے
شکست و نارسائی کا کوئی ردِّ عمل ان میں کبھی دیکھا نہیں جاتا
خطِ غُربت سے نیچے زندگی کو جھیلنے والے
یہ خود کو بے حِسی کے آئینے میں دیکھنے والے
کوئی شکوہ نہیں کرتے
یہ خوف و رنج و غُربت پر کوئی جُنبش ہی کرتے ہیں
نہ آوازہ لگاتے ہیں
انہیں کچھ بھی نہیں ہوتا
یہ مُردہ ہیں
کہ ان کی رُوح ان کے جسم میں ہی مر چُکی ہے
اور اب یہ لوگ زندہ لاش کی مانند جیتے ہیں
انہیں بس خوف آتا ہے
یہ شہرِ رم کے قبرستان کی گِنتی کا حصہ ہیں
تعجّب ہے کہ یہ لاشیں ہی جلسہ گاہوں کو آباد کرتی ہیں
زرا سی دیر کو ان کے شکستہ اور مُردہ جسم میں پھر جان پڑتی ہے
یہ اپنے ناخُدا کی شان میں بیٹھی ہوئی آواز سے نعرے لگاتی ہیں
ترانوں کی لہک میں جُھومتی ہیں اور گاتی ہیں
یہ مردے، ہاں ہاں یہی مردے بُھول جاتے ہیں
کہ اگلے سامراجوں نے انہیں کیسے دبوچا تھا
مِلی جب خِلعتِ شاہی تو کیسے روند ڈالا تھا
سمجھتے ہیں کہ اب کی بار تو ایسا نہیں ہو گا
ہُوا تھا پہلے جیسا کم سے کم ویسا نہیں ہو گا
مگر افسوس کہ ان سامراجی جانشینوں کی بس اتنی سی حقیقت ہے
یہ اپنے نفس کی چوٹی پہ بیٹھے گِدھ ہیں
اور مُردار کھاتے ہیں
نعیم سمیر
No comments:
Post a Comment