خواب آنکھوں پہ بار ہو گئے ہیں
جاگیے! دن کے چار ہو گئے ہیں
اک گلی کی مُسافتوں میں ہم
ہر گلی کا غُبار ہو گئے ہیں
لو! بچھڑنے کا وقت آن پڑا
سارے قول و قرار ہو گئے ہیں
ڈُوبنا چاہتے تو تھے، لیکن
ہو گئے ہیں تو پار ہو گئے ہیں
خیر دامن تو کب سلامت تھا
حوصلے تار تار ہو گئے ہیں
اور اب اُس کی آرزو میں ہم
آپ اپنا شکار ہو گئے ہیں
جرار حیدر
No comments:
Post a Comment