دُھوپ کی شِدّت بنی کالی گھٹا میرے لیے
ہاتھ اُٹھا کر اس نے جب مانگی دُعا میرے لیے
یادوں کی پرچھائیوں کے ساتھ لے کر آئے گی
اس کی زُلفوں کی مہک موجِ صبا میرے لیے
میں کہ مہرِ نِیم شب، مجھ کو بُجھانا ہے محال
سازشیں کر یا کہ دیواریں اُٹھا میرے لیے
چَین سے سو جاؤں گا جب میں دُکھوں کی گود میں
سر پٹک کر روئے گی وحشی ہوا میرے لیے
مسئلوں کی فوج کے ہمراہ اُس کے شہر میں
مُنتظر تھی اک طلسماتی فضا میرے لیے
عبدالسلام اظہر
No comments:
Post a Comment