یہ ہے سُورج کا مقدر یہ کہاں ٹلتا ہے
جب بھی آتا ہے بُلندی پہ تبھی ڈھلتا ہے
اشک تو ختم ہوئے سُوکھ چکی ہیں آنکھیں
اب چراغوں میں مِرے دل کا لہو جلتا ہے
کوئی آغوش میں بھر لیتا ہے طوفانوں کو
کوئی ساحل پہ سدا ہاتھ ہی بس ملتا ہے
ہر تجارت میں منافع ہے ضروری، لیکن
اس طرح جیسے کہ آٹے میں نمک ڈلتا ہے
جب ہواؤں میں نہیں ہوتی وفاؤں کی مہک
سانس تب لینا ہمیں اپنا بہت کَھلتا ہے
مہک کیرانوی
No comments:
Post a Comment