Tuesday 18 June 2024

میں خوش ہوں اور یہ دنیا دکھی ہے

 میں خُوش ہوں اور یہ دُنیا دُکھی ہے

مجھے اس بات پر شرمندگی ہے

تمہارے سامنے رستے کُھلے ہیں

ہمارے سامنے اندھی گلی ہے

مِرا بستر بھی آخر پُوچھ بیٹھا

تمہاری نیند سے کیا دُشمنی ہے؟

ہمیں بھی اور کچھ کہنا نہیں ہے

اُسے جانے کی بھی جلدی بڑی ہے

سمندر اس لیے مجھ سے خفا ہیں

مِری اک جل پری سے دوستی ہے


سروش آصف

No comments:

Post a Comment