Wednesday, 19 June 2024

خوشیوں کے ہر اک پل سے رہی دور رعایا

 خوشیوں کے ہر اک پل سے رہی دور رعایا

شاہا! یہ تِرے ملک کی مجبور رعایا

صدیوں سے غلامی کی سزا کاٹ رہی ہے

یہ جبر کے زندان میں محصور رعایا

کیسا یہ تِرا عدل ہے کیسا ہے ترازو 

روشن ہے محل تیرا تو بے نور رعایا

ان کا نہ سہارا کوئی جز تیرے سوا ہے

خود پر ہی بنی بوجھ ہے معذور رعایا

اس دیس کے حاکم کو کہاں فکر ہے عنبر

جائے تو کہاں فکر سے رنجور رعایا


فرحانہ عنبر

No comments:

Post a Comment