خوشیوں کے ہر اک پل سے رہی دور رعایا
شاہا! یہ تِرے ملک کی مجبور رعایا
صدیوں سے غلامی کی سزا کاٹ رہی ہے
یہ جبر کے زندان میں محصور رعایا
کیسا یہ تِرا عدل ہے کیسا ہے ترازو
روشن ہے محل تیرا تو بے نور رعایا
ان کا نہ سہارا کوئی جز تیرے سوا ہے
خود پر ہی بنی بوجھ ہے معذور رعایا
اس دیس کے حاکم کو کہاں فکر ہے عنبر
جائے تو کہاں فکر سے رنجور رعایا
فرحانہ عنبر
No comments:
Post a Comment