Wednesday, 19 June 2024

لا مکان و مکاں سے ڈھلتے ہیں

 لامکان و مکاں سے ڈھلتے ہیں

آ، کہیں اور جا نکلتے ہیں

وہ بہاتی ہے میرے نام کا دِیپ

پانیوں پر چراغ جلتے ہیں

تیرگی جب بھی گھیرتی ہے مجھے

سُر اٹھاتا ہوں، داغ جلتے ہیں

پتھروں کو میں موم کرتا ہوں

تان میری پہ دل پگھلتے ہیں

عشق ہو جائے ایک بار تو پھر

سر سے کتنے عذاب ٹلتے ہیں

اب یہ قنبر! سفر تمام ہوا

آئیے گھر سے اب نکلتے ہیں


قنبر عارفی

No comments:

Post a Comment