Wednesday, 19 June 2024

دعائے نیم شبی ہو یا التجائے دو پہری

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

ہمارے گاؤں کی مسجد ہمیں بلاتی ہے حصہ اول


دعائے نیم شبی ہو یا التجائے دو پہری

ہمارے گاؤں کی مسجد ہمیں بلاتی ہے

خدا کا خوف ہے، رقّت ہے، درد لہجے میں

وہی رحیم ہے، رحمان بھی کریم بھی ہے

وہی عزیز ہے، جبّار ہے، قوّی بھی ہے

وہ درد مندوں کا ستّار ہے، علیم بھی ہے

سمیع و رازق و رزّاق بھی، حکیم بھی ہے

متین، حمید، بصیر و خبیر سب کچھ وہ

احد ہے اور صمد ہے وہ وحدہٗ لا شریک

وہ لم یلد ہے، وہی و لم یولد

قیام اس کے، رکوع و سجود سب اس کے

اسی کی حمد، ثناء، ذکر، فکر، شکر بھی ہے

مگر عرض یہ تمنائے خاک پاک کی ہے

درود ساقئ کوثرﷺ مع ان کی آلؑ اولاد

اور جد امجد براہیمؑ و ان کی آلؑ اولاد

خلیلیؑ سوز میں سازِ محمدیؐ کی تڑپ

سلامتی کی دعا ہے سلام کی خاطر

ہمارے گاؤں کی مسجد ہمیں بلاتی ہے

بلندیوں سے مناروں کے سر بلند ہوتی ہوئی

مکینِ عرش بریں کے حضور جاتی ہے

پکار اپنے مؤذن کی دعوت حق ہے

اذان! اللہ اکبر کی دلنشیں آواز

فسونِ صبح کی غفلت کو چاک کرتی ہے

بجھا کے نیند کی شمع وضو کے پانی سے

نئے اُجالوں کے سُورج کو نُور دیتی ہے

یہ دو پہر کی تمازت ہے اور دن کا جلال

اذان اس پہ بھی بادل کا چھاؤں کرتی ہے

سرکتے شام کے سائے میں روشنی کا گیت

بڑے ہی میٹھے سُروں میں سنائی دیتا ہے

پھر اس کے بعد جب سُورج غروب ہوتا ہے

یہی صدا تو ستاروں سی جھلملاتی ہے

اور اس کے بعد چراغوں کو روشنی دے کر

سکوتِ شب کے طلسمات توڑ جاتی ہے

اکیلی رات تہجد گُزار آنکھوں میں

کبھی وہ چاند بھی سرگوشیاں سی کرتا ہے

امام صاحب مصلیٰ پہ جانے والے ہیں

کہ وقت ہو ہی گیا ہے میاں جماعت کا

بلند ہوتی ہے تکبیر کی صدا بندی

قرأت شروع ہوئی بھولے امام صاحب کی

کہ پچھلی صف کے وہی کچھ شریر بچوں کی

دبی دبائی سی آواز کھلکھلاتی ہے

ہمارے گاؤں کی مسجد ہمیں بلاتی ہے

کھڑے ہیں لوگ ابھی بھی درِ عقیدت پر

نمازیوں کی دعائیں انہیں جلاتی ہیں

اخیر رات کے حصے سے اپنا رشتہ ہے

سنہرے خواب سے پھر نیند ٹوٹ جاتی ہے

ہمارے گاؤں کی مسجد ہمیں بلاتی ہے


اشہد کریم الفت 

No comments:

Post a Comment