بہت کچھ کھو کے کچھ پایا نہیں کیا
سمجھ کر بھی، سمجھ آیا نہیں کیا
تُو جو سمجھا تھا کیا وہ سب غلط تھا
جو سوچا تھا وہ بن پایا نہیں کیا
تمہیں کتنا یقیں تھا سچ پر اپنے
تمہیں دُنیا نے جُھٹلایا نہیں کیا
وہی غصّہ، غلط باتوں کو سُن کر
اب اِن جذبوں کو دفنایا نہیں کیا
کنارے پر کھڑے تھے، کیا ہُوا پھر؟
تمیں دریا نے اُکسایا نہیں کیا
کوئی ایسا، کہ جس کے تم ہو سب کچھ
کوئی بھی نام یاد آیا نہیں کیا؟
نعیم سمیر
No comments:
Post a Comment