Friday, 14 June 2024

میں بہک سکوں یہ مجال کیا مرا رہنما کوئی اور ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


میں بہک سکوں یہ مجال کیا، مِرا رہنما کوئی اور ہے

مجھے خوب جان لیں منزلیں، یہ شکشتہ پا کوئی اورہے

مِری التجا ہے یہ دوستو! کبھی تم جو سُوئے حرم چلو

تو بنا کے سر کو قدم چلو، کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

وہ حبیبِؐ ربِ کریم ہیں، وہ رؤف ہیں وہ رحیم ہیں

انہیں فکر ہے مِری آپ کی، انہیں چاہتا کوئی اور ہے

بہ جز اُن کے رحمتِ دو جہاں بہ جز اُن کے عرش کا میہماں

یہ ملا جواب کوئی نہیں، یہ سوال تھا کوئی اور ہے؟

ہے خبر تجھے شہِ این و آں، مِری وجہِ راحتِ قلب و جاں

نہ تِرے سوا کوئی اور تھا، نہ تِرے سوا کوئی اور ہے

یہ گمان تھا کئی سال سے، یہ یقین ہے کئی روز سے

مِرے دل سے گنبدِ سبز کا یہ معاملہ کوئی اور ہے

جو تمہاری جالی سے متصل، ہے ستوں کے پیچھے خجل خجل

نہیں میں نہیں وہ مریضِ دل، نہ مِرے سوا کوئی اور ہے

میں جو دور ارضِ حرم سے تھا، ہوئی خلدِ گوش حسیں صدا

ہے اسی میں ماجدِ بے نوا، کہ یہ قافلہ کوئی اور ہے


ماجد خلیل

No comments:

Post a Comment