عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ماں اور کربلا کی مائیں
ہر دھوپ سے بچائے جو وہ سائباں ہے ماں
بچہ اگر ہے شاد تو پھر شادماں ہے ماں
بچہ ہے گر اداس تو پھر نیم جاں ہے ماں
ماں کا شرف یہ سب سے بڑا ہے کہ ماں ہے ماں
ہر ہر عمل میں اس کے صفت چارہ گر کی ہے
جنت اسی کے پاؤں کے نیچے بشر کی ہے
دنیائے فلسفہ میں ارسطو سا فلسفی
ایوانِ فلسفہ میں بڑھی جس سے روشنی
صدیوں سے کر رہا ہے جو ذہنوں کی رہبری
اس نے بھی ماں کے واسطے اک بات یہ کہی
ہر اک امید اس سے نہ آرامِ جاں کی ہو
اولاد پر بھی فرض ہے ہمدرد ماں کی ہو
٭
تاریخ میں ہیں یوں تو بہت اک سے ایک ماں
لیکن وہ کربلا کی سی مائیں، بھلا کہاں
دیں کے لیے جو پال کے بچے کریں جواں
بے مثل و بے نظیر ہیں مائیں وہ جاوداں
جو اپنے نونہال کو جنگل میں بھیج دیں
بے شِیر و بے زبان بھی مقتل میں بھیج دیں
محفوظ گھر کو آنے کی کرتی ہے ماں دعا
بے شک یہی تقاضۂ فطرت ہے با خدا
ماں سے امید رکھتی ہے، یہ ماں کی مامتا
لیکن، ہے کربلا میں عجب ہی مظاہرا
رن کو پسر چلا ہے، تو کیا مانگتی ہے ماں
زندہ نہ لوٹنے کی، دعا مانگتی ہے ماں
اس ماں کے دل سے پوچھیے دولھا تھا جس کا لال
دولھا وہ جس کے واسطے پھولوں کا کیا سوال
جس کا بجائے عیش ہوا موت سے وصال
مقتل میں جا کے جس کی ہوئی لاش پائمال
گھوڑوں کے دوڑنے سے جو لاشہ کچل گیا
اک ماں کی حسرتوں کا جنازہ نکل گیا
امِ ربابؑ مادر بے شِیر کو سلام
وہ جس نے رن میں بھیج دیا اپنا لالہ فام
چھوٹا سپاہی جس کا، بڑا کر گیا ہے کام
وہ شِیر خوار رن میں جو لے کر گئے امام
اصغرؑ جو کھا کے تیرِ ستم، مسکرا اٹھے
اس وقت موت کے بھی قدم ڈگمگا اٹھے
میّت جوان لال کی خیمے میں آئی جب
اٹھارہ سال کی جو تھی محنت لٹی غضب
سر اور سینہ پیٹ رہے تھے وہاں پہ سب
دیکھا یہ ماں نے حال تو حالت ہوئی عجب
آنکھوں میں جتنے اشک تھے مادر کی بہہ گئے
افسوس، دل کے دل میں ہی ارماں رہ گئے
عظیم امروہوی
No comments:
Post a Comment