Monday, 19 August 2024

میں فلسطین ہوں اس دور کے آوارہ مزاج

 میں فلسطین ہوں اس دور کے آوارہ مزاج

طنز کستے ہیں مِرے جسم کی عُریانی پر

مِرے قدموں سے زمیں چھیننے والے مردود

ہنستے رہتے ہیں مِری بے سر و سامانی پر

ٹھیک ہے میری طرف رُخ ہے تِرے تیروں کا

ٹھیک ہے دہر میں مجھ سا کوئی مظلوم نہیں

روند کے رکھ  دے گا طوفان مِری آہوں کا

بے خبر ہے، تجھے اتنا ابھی معلوم نہیں

تھک کے بجھ جائے گی یہ شمع سحر سے پہلے

صف بہت لمبی ہے جلتے ہوئے پروانوں کی

تیغ کی دھار پہ ہنستے ہوئے رکھتے ہیں گلا

جرأتیں دیکھ مِرے شہر کے دیوانوں کی 

استقامت کے طمانچہ سے ہوا ظلم نڈھال

سامنا کرتا نہیں اب کسی فریادی کا

طاقتیں گھر سے مجھے کر تو چکی ہیں بے گھر

آنے والا ہے مگر دن مِری آزادی کا

حِدت ضبط سے جُھلسے ہوئے خوابوں کا ہجوم

آنکھ سے نیند کی حسرت کو مٹا دیتا ہے

بندشیں لاکھ زباں پر مِری لگ جائیں مگر

ذرہ ذرہ  مِرا "القدس لنا" کہتا ہے 

خوں میں ڈوبی ہوئی اس بانجھ زمیں کی چیخیں

آسمانوں کو بھی سُن سُن کے حیا آتی ہے

بین کرتے در و دیوار کی پیشانی پر 

ہاتھ رکھتے ہی مؤرخ کو قضا آتی ہے

خونِ نا حق کا ٹپکتا ہوا بس اک قطرہ

ظُلم کے شہر میں سیلاب بھی لا سکتا ہے

ایک جھونکا کسی مظلوم کی آہوں کا ندیم

غاصب وقت کی بنیاد ہلا سکتا ہے


ندیم سرسوی

No comments:

Post a Comment