ارے مجھ سے اداکاری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی
کبھی مجھ سے یہ مکاری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی
کہا ہے پھول کو ہی پھول میں نے خار کو بھی خار
کسی کی بھی طرفداری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی
محبت ساتھ چلنا ہے سجن کے ساتھ آہستہ
اور اس میں تیز رفتاری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی
یہ صحرا گھر کُشادہ ہے سبھی آزاد لوگوں کا
اور اس میں چار دیواری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی
کبھی میں چھوڑ کر اپنے خوشی سے رہ نہ پاؤں گا
غریبوں سے یہ غداری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی
جو کرتے منہ پہ ہیں واہ وا گلہ کرتے ہیں جو پیچھے
مِری ان سے کبھی یاری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی
جو تم چاہو لکھوں وہ میں جو تم چاہو کہوں وہ میں
ارے ایسی قلمکاری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی
مسرور پیرزادو
No comments:
Post a Comment