دل آرزو کے باب سے آگے نہیں بڑھا
یعنی، کہ دستیاب سے آگے نہیں بڑھا
صد شکر بال رہ گئے اس عمر تک کہ یوں
قضیہ کبھی خضاب سے آگے نہیں بڑھا
انیسویں صدی سا ہمارا جو عشق تھا
شعروں کے انتخاب سے آگے نہیں بڑھا
ہم چشمۂ سیاہ کے پیچھے چھپے رہے
وہ غسلِ آفتاب سے آگے نہیں بڑھا
ہم سے ہوا نہ عشق، نہ ڈھب سے کوئی بھی کام
دل فیض کے نصاب سے آگے نہیں بڑھا
ہم کو بھی کوئی چاہ تھی، پاؤں سے سر تلک
پر حوصلہ جراب سے آگے نہیں بڑھا
گھوڑا سمجھ کے بیٹھ گئے تھے، گدھا تھا وہ
پیچھے چلا شتاب سے، آگے نہیں بڑھا
راکٹ پہ بیٹھ کر بھی انسان آج تک
کچھ حسنِ ماہتاب سے آگے نہیں بڑھا
بھٹکے ہوئے، خدا کو ،برابر عزیز ہیں
واعظ، گنہ ثواب سے آگے نہیں بڑھا
حامد عتیق سرور
No comments:
Post a Comment