چند حاجاتِ مطلبی کے لیے
پھر بڑھے ہاتھ دوستی کے لیے
فخر اور وہ بھی گُمرہی کے لیے
نا مناسب ہے آدمی کے لیے
جو ہیں بدنام کج روی کے لیے
وہ ہی آئے ہیں رہبری کے لیے
دل میں اب کوئی ولولہ ہی نہیں
ہم ہیں زندی تِری خوشی کے لیے
عہد و پیمان کی ہے بات جُدا
کوئی مرتا نہیں کسی کے لیے
ہے ضروری کبھی کبھی تکرار
پیار میں ربطِ باہمی کے لیے
عمر ساجد نہیں ہے شرط کوئی
فن میں معیار و پُختگی کے لیے
ساجد شاہجہانپوری
No comments:
Post a Comment