عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حسین چہرہ شمائل کا گوشوارہ ہے
کمال خلق خصائل کا اک شمارہ ہے
خیال خام ہے تیرے بغیر شنوائی
تُو کل جہان میں رحمت کا استعارہ ہے
عطا ہو تجھے ندرت کتاب و حکمت کی
تُو انبیاء کے دبستاں کا شاہ پارہ ہے
تُو ابتدائے حقیقت کے وقت کا ناظر
تُو سب جہانوں کی تخلیق کا اشارہ ہے
اے میرے خانہ خستہ خیال کے والی
تُو میری آس ہے، امید ہے، سہارا ہے
ہے تیرا وصل ہی وجہِ وجودِ رنگِ حیات
تِرا فراق تو اِک بجھ چکا شرارہ ہے
تُو میرا حامی و ناصر، تُو رہبر و مولا
کہ تیری یاد ہی منزل نما ستارہ ہے
میں بے قرار سی اِک موج بحرِ عصیاں کی
تُو بادبان ہے، کشتی ہے، تُو کنارہ ہے
تِری عطا ہی کو زیبا ہے دو جہاں کی عطا
تِرے کرم کا شفاعت پہ بھی اجارہ ہے
شعور کس کو ہے شاہا! تِری حقیقت کا
ہمیں تو اتنا بہت ہے کہ تو ہمارا ہے
سیدہ مہرو مصور صلاح الدین
No comments:
Post a Comment