Tuesday 20 August 2024

وفا کے راستے کو بھی نہ آئیں گے

 وفا کے راستے کو بھی نہ آئیں گے

وہ حال پُوچھنے کو بھی نہ آئیں گے

یہ باغ سارا سُوکھ جائے گا یونہی

وہ پھُول توڑنے کو بھی نہ آئیں گے

جو لوگ آج میرے ساتھ ساتھ ہیں

یہ کل کو تھُوکنے کو بھی نہ آئیں گے

بھری ہوئی ہے زندگی مٹھاس سے

وہ زہر گھولنے کو بھی نہ آئیں گے

کچھ ایسے جا رہے ہیں تیرے شہر سے

دوبارہ گُھومنے کو بھی نہ آئیں گے

ہم انقلابی دور کی وہ فلم ہیں

کہ لوگ دیکھنے کو بھی نہ آئیں گے

تِرے فقیر اب کسی مزار پر

دھمال ڈالنے کو بھی نہ آئیں گے


حفیظ عامر

No comments:

Post a Comment